FARAZ AHMAD FARAZ

سکوتِ شامِ خزاں ہے قریب آ جاؤ
بڑا اداس سماں ہے قریب آ جاؤ

نہ تم کو خود پہ بھروسا نہ ہم کو زعمِ وفا
نہ اعتبارِ جہاں ہے قریب آ جاؤ

رہِ طلب میں کسی کو کسی کا دھیان نہیں
ہجومِ ہم سفراں ہے قریب آ جاؤ

جو دشتِ عشق میں بچھڑے وہ عمر بھر نہ ملے
یہاں دھواں ہی دھواں ہے قریب آ جاؤ

یہ آندھیاں ہیں تو شہرِ وفا کی خیر نہیں
زمانہ خاک فشاں ہے قریب آ جاؤ

فقیہِ شہر کی مجلس نہیں کہ دور رہو
یہ بزمِ پیرِ مغاں ہے قریب آ جاؤ

فراز دور کے سورج غروب سمجھے گئے
یہ دورِ کم نظراں ہے قریب آ جاؤ
.
احمدفراز

قتیل شفائی

 قتیل شفائی
نہ جانے کن اداؤں سے لبھا لیا گیا مجھے
قتیل میرے سامنے چُرا لیا گیا مجھے
کبھی جو ان کے جشن میں سیاہیاں بکھر گئیں
تو روشنی کے واسطے جلا لیا گیا مجھے
براہِ راست رابطہ نہ مجھ سے تھا قبول انہیں
لکھوا کے خط رقیب سے بلا لیا گیا مجھے
جب ان کی دید کے لیے قطار میں کھڑا تھا میں
قطار سے نہ جانے کیوں ہٹا لیا گیا مجھے
میں روندنے کی چیز تھا کسی کے پاؤں سے مگر
کبھی کبھی تو زلف میں سجا لیا گیا مجھے
سوال تھا وفا ہے کیا جواب تھا کہ زندگی

قتیل پیار سے گلے لگا لیا گیا مجھے

شاعر ناصر کاظمی

شاعر ناصر کاظمی
کیا زمانہ تھا کہ ہم روز ملا کرتے تھے
رات بھر چاند کے ہمراہ پھرا کرتے تھے
جہاں تنہائیاں سر پھوڑ کے سو جاتی ہیں
ان مکانوں میں عجب لوگ رہا کرتے تھے
کر دیا آج زمانے نے انہیں بھی مجبور
کبھی یہ لوگ مرے دکھ کی دوا کرتے تھے
دیکھ کر جو ہمیں چپ چاپ گزر جاتا ہے
کبھی اس شخص کو ہم پیار کیا کرتے تھے
اتفاقاتِ زمانہ بھی عجب ہیں ناصر
آج وہ دیکھ رہے ہیں جو سنا کرتے تھے

مرزا اسد اللہ خاں غالب

حضورِ شاہ میں اہلِ سخن کی آزمائش ہے
چمن میں خوش نوایانِ چمن کی آزمائش ہے

قد و گیسو میں ، قیس و کوہکن کی آزمائش ہے
جہاں ہم ہیں ، وہاں دار و رسن کی آزمائش ہے

کریں گے کوہکن کے حوصلے کا امتحاں آخر
ہنوز اُس خستہ کے نیروۓ تن کی آزمائش ہے

نسیمِ مصر کو کیا پیرِ کنعاں کی ہوا خواہی!
اُسے یوسف کی بُوئے پیرہن کی آزمائش ہے

وہ آیا بزم میں ، دیکھو ، نہ کہیو پھر کہ ”غافل تھے“
شکیب و صبرِ اہلِ انجمن کی آزمائش ہے

رہے دل ہی میں تیر *، اچھا ، جگر کے پار ہو ، بہتر
غرض شِستِ بُتِ ناوک فگن کی آزمائش ہے

نہیں کچھ سُبحۂ و زُنّار کے پھندے میں گیرائی
وفاداری میں شیخ و برہمن کی آزمائش ہے

پڑا رہ ، اے دلِ وابستہ ! بیتابی سے کیا حاصل؟
مگر پھر تابِ زُلفِ پُرشکن کی آزمائش ہے

رگ و پَے میں جب اُترے زہرِ غم ، تب دیکھیے کیا ہو!
ابھی تو تلخئ کام و دہن کی آزمائش ہے

وہ آویں گے مِرے گھر ، وعدہ کیسا ، دیکھنا ، غالب!
نئے فتنوں میں اب چرخِ کُہن کی آزمائش ہے

تمہاری پوروں کا لمس اب تک

تمہاری پوروں کا لمس اب تک
مری کفِ دست پر ہے
اور میں یہ سوچتا ہوں
وہ لمحے کتنے دروغ گو تھے

ہتھیلیوں پر فقط مری نامراد آنکھیں دھری ہوئی تھیں
اور ان میں
قسمت کی سب لکیریں مری ہوئی تھیں
فراز احمد فراز

دیا ہے دل اگر اُس کو ، بشر ہے ، کیا کہیے

دیا ہے دل اگر اُس کو ، بشر ہے ، کیا کہیے
ہوا رقیب ، تو ہو ، نامہ بر ہے ، کیا کہیے

یہ ضد کہ آج نہ آوے ، اور آئے بِن نہ رہے
قضا سے شکوہ ہمیں کِس قدر ہے ، کیا کہیے!

رہے ہے یوں گِہ و بے گہِ ، کہ کُوئے دوست کو اب
اگر نہ کہیے کہ دشمن کا گھر ہے ، کیا کہیے!

زہے کرشمہ کہ یوں دے رکھا ہے ہم کو فریب
کہ بن کہے ہی انہیں سب خبر ہے، کیا کہیے

سمجھ کے کرتے ہیں ، بازار میں وہ پُرسشِ حال
کہ یہ کہے کہ ، سرِ رہگزر ہے ، کیا کہیے؟

تمہیں نہیں ہے سرِ رشتۂ وفا کا خیال
ہمارے ہاتھ میں کچھ ہے ، مگر ہے کیا؟ کہیے!

اُنہیں سوال پہ زعمِ جنوں ہے ، کیوں لڑیئے
ہمیں جواب سے قطعِ نظر ہے ، کیا کہیے؟

حَسد ، سزائے کمالِ سخن ہے ، کیا کیجے
سِتم ، بہائے متاعِ ہُنر ہے ، کیا کہیے!

کہا ہے کِس نے کہ غالب بُرا نہیں ، لیکن
سوائے اس کے کہ آشفتہ سر ہے ، کیا کہیے

اردو كی بہترین ویب سائٹ كے لیے یہاں سرچ كریں