mohsin naqvi shayari لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
mohsin naqvi shayari لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

محسن نقوی کی شاعری

اک دیا دل میں جلانا بھی، بجھا بھی دینا
یاد کرنا بھی اسے روز، بھلا بھی دینا
کیا کہوں میری چاہت ہے یا نفرت اس کی
نام لکھنا بھی میرا، لکھ کے مٹا بھی دینا
پھر نہ ملنے کو بچھڑتا ہوں تجھ سے لیکن
مڑ کے دیکھوں تو پلٹنے کی دعا بھی دینا
خط بھی لکھنا اسے مایوس بھی رہنا اس سے
جرم کرنا بھی مگر خود کو سزا بھی دینا
مجھ کو رسموں کا تکلف بھی گوارا لیکن
جی میں آئے تو یہ دیوار گرا بھی دینا
اس سے منسوب بھی کر لینا پرانے قصے
اس کے بالوں میں نیا پھول سجا بھی دینا
صورتِ نقش ِ قدم، دشت میں رہنا محسن
اپنے ہونے سے نہ ہونے کا پتہ بھی دینا
محسن نقوی
طے کر نہ سکا زیست کے زخموں کا سفر بھی
حالانکہ مرا دل تھا شگوفہ بھی شرر بھی
اترا نہ گریباں میں مقدر کا ستارا
ہم لوگ لٹاتے رہے اشکوں کے گہر بھی
حق بات پہ کٹتی ہیں تو کٹنے دو زبانیں
جی لیں گے مرے یار باندازِ دگر بھی
حیراں نہ ہو آئینہ کی تابندہ فضا پر
آ دیکھ ذرا زخمِ کفِ آئینہ گر بھی
سوکھے ہوئے پتوں کو اُڑانے کی ہوس میں
آندھی نے گرائے کئی سر سبز شجر بھی
وہ آگ جو پھیلی مرے دامن کو جلا کر
اس آگ نے پھونکا میرے احباب کا گھر بھی
محسن یونہی بدنام ہوا شام کا ملبوس
حالانکہ لہو رنگ تھا دامانِ سحر بھی
محسن نقوی
اب کے اس طور سے آنچل کی ہوا دے مجھ کو
جاگتے ذہن کی میراث بنا دے مجھ کو
میں نے سمجھا ہے تجھے منصفِ دوراں اکثر
میری ناکردہ گناہی کی سزا دے مجھ کو
میں تری راہ میں اک سنگ سبک وزن تو ہوں
دیر کیا لگتی ہے ٹھوکر سے ہٹا دے مجھ کو
یہ الگ بات کہ اوجھل ہوں نظر سے ورنہ
میں تیرے پاس ہی رہتا ہوں صدا دے مجھ کو
میں دھڑکتا ہوں تیرے سینے میں دل کی صورت
اے مرے دشمنِ جاں اور دعا دے مجھ کو
اف شبِ غم کا وہ ٹھہرا ہوا لمحہ محسن
جب مرے وہم کی آہٹ بھی جگا دے مجھ کو
محسن نقوی
پھیلے گی بہر طور شفق نیلی تہوں میں
قطرے کا لہو بھی ہے سمندر کی رگوں میں
مقتل کی زمیں صاف تھی آئینہ کی صورت
عکسِ رخِ قاتل تھا ہر اک قطرہءِ خوں میں
مت پوچھ مری چشمِ تحیر سے کہ مجھ کو
کیا لوگ نظر آئے ہیں دشمن کی صفوں میں
کچھ وہ بھی کم آمیز تھا، تنہا تھا، حسیں تھا
کچھ میں بھی مخل ہو نہ سکا اس کے سکوں میں
ہر صبح کا سورج تھا میرے سائے کا دشمن
ہر شب نے چھپایا ہے مجھے اپنے پروں میں
اب اہل خرد بھی ہیں لہو سنگِ جنوں سے
کیا رسم چلی شہر کے آشفتہ سروں سے
جو سجدہ گہِ ظلمت ِ دوراں رہے محسن
اتری نہ کوئی اندھی کرن ایسے گھروں میں
محسن نقوی
چراغ خود سے بجھا ہے کہ رات بیت گئی
یہ راکھ راکھ رتیں اپنی رات کی قسمت
تم اپنی نیند بچھاؤ تم اپنے خواب چنو
بکھرتی ڈوبتی نبضوں پہ دھیان کیا دینا
تم اپنےدل میں دھڑکتے ہوئے حروف سنو
تمہارے شہر کی گلیوں میں سیل رنگ بخیر
تمہارے نقش قدم پھول پھول کھلتےر ہیں
وہ رہگزر جہاں تم لمحہ بھر ٹھہر کے چلو
وہاں پہ ابر جھکیں آسمان ملتے رہیں
نہیں ضروری کہ ہر اجنبی کی بات سنو
ہر اک صدا پہ دھڑکنا بھی دل پہ فرض نہیں
سکوتِ حلقہء زنجیرِ در بھی کیوں ٹوٹے
صبا کا ساتھ نبھانا جنوں پہ قرض نہیں
ہم ایسے لوگ بہت ہیں جو سوچتے ہی نہیں
کہ عمر کیسے کٹی کس کے ساتھ بیت گئ
ہماری تشنہ لبی کا مزاج کیا جانے ؟
کہ فصل بخشش موج فرات بیت گئ
یہ ایک پل تھا جسے تم نے نوچ ڈالا تھا
وہ اک صدی تھی جو بے التفات بیت گئ
ہماری آنکھ لہو ہے تمہیں خبر ہو گی
چراغ خود سے بجھا ہے کہ رات بیت گئی
محسن نقوی
لہو کی موج ہوں‌ اور جسم کے حصار میں ہوں
رواں رہوں بھی تو کیسے کہ برف زار میں ہوں
جہانِ شامِ الم کے اداس ہمسفرو
مجھے تلاش کرو، میں اسی دیار میں ہوں
میں پھول بھی ہوں میرے پیرہن میں‌رنگ بھی ہے
مگر ستم یہ ہوا ہے کہ ریگ زار میں ہوں
چراغِ راہ سہی خود فریب ہوں اتنا
کہ شب کی آخری ہچکی کے انتظار میں ہوں
ہر ایک پل مجھے خوفِ شکست ہے محسن
میں آئینہ ہوں مگر دستِ سنگبار میں ہوں
محسن نقوی
اب کے یوں بھی تیری زلفوں کی شکن ٹوٹی ہے
رنگ پھوٹے، کہیں‌ خوشبو کی رسن ٹوٹی ہے
موت آئی ہے کہ تسکین کی ساعت آئی
سانس ٹوٹی ہے کہ صدیوں کی تھکن ٹوٹی ہے
دل شکستہ تو کئی بار ہوئے تھے لیکن
اب کے یوں ہے کہ ہر شاخِ بدن ٹوٹی ہے
ایک شعلہ کہ تہہِ خیمہءِ جاں لپکا تھا
ایک بجلی کہ سرِ صحنِ چمن ٹوٹی ہے
میرے یاروں کے تبسم کی کرن مقتل میں
نوکِ نیزہ کی طرح زیرِ کفن ٹوٹی ہے
ریزہ ریزہ میں بکھرتا گیا ہر سو محسن
شیشہ شیشہ میری سنگینیءِ فن ٹوٹی ہے
محسن نقوی
شام کے سر پر آنچل دیکھا
ہم نے جلتا جنگل دیکھا
اپنی آنکھ میں آنسو پائے
اُن کی آنکھ میں کاجَل دیکھا
پھول نظر میں رقصاں رقصاں
جانے کِس کا آنچل دیکھا
من کے بَن میں خاک اُڑتی تھی
آج وہاں پر جل تھَل دیکھا
جب بھی دیکھا ہے محسن کو
تیرے پیار میں پاگل دیکھا
محسن نقوی
میں دل پہ جبر کروں گا، تجھے بھلا دوں گا
مروں گا خود بھی تجھے بھی کڑی سزا دوں گا
یہ تیرگی میرے گھر کا ہی کیوں‌ مقدر ہو ؟
میں تیرے شہر کے سارے دیئے بجھا دوں گا
ہوا کا ہاتھ بٹاؤں گا ہر تباہی میں
ہرے شجر سے پرندے میں خود اڑا دوں گا
وفا کروں گا کسی سوگوار چہرے سے
پرانی قبر پہ کتبہ نیا سجا دوں گا
اسی خیال میں گزری ہے شامِ درد اکثر
کہ درد حد سے بڑھے گا تو مسکرا دوں گا
تو آسماں کی صورت ہے گر پڑے گا کبھی
زمیں ہوں بھی مگر تجھ کو آسرا دوں گا
بڑھا رہی ہیں میرے دکھ، نشانیاں تیری
میں تیرے خط، تری تصویر تک جلا دوں گا
بہت دنوں سے مرا دل اداس ہے محسن
اس آئینے کو کوئی عکس اب نیا دوں گا
محسن نقوی






اردو كی بہترین ویب سائٹ كے لیے یہاں سرچ كریں