میر تقی میر کے مشہور زمانہ اشعار
الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماریِ دل نے آخر کام تمام کیا
نازکی اُس کے لب کی کیا کہئیے
پنکھڑی اِک گلاب کی سی ہے
میر اُن نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی سی ہے
ہم فقیروں سے بے ادائی کیا
آن بیٹھے جو تم نے پیار کیا
سخت کافر تھا جن نے پہلے میر
مذہبِ عشق اختیار کیا
قدررکھتی نہ تھی متاعِ دل
سارے عالم میں مَیں دکھا لایا
میرے سنگِ مزار پر فرہاد
رکھ کے تیشہ کہے ہے یا اُستاد
خاک بھی سر پہ ڈالنے کو نہیں
کس خرابہ میں ہم ہوئے آباد
جس سر کو غرور آج ہے یاں تاج وری کا
کل اس پہ یہیں شور ہے پھر نوحہ گری کا
وہ جو پی کر شراب نکلے گا
کس طرح آفتاب نکلے گا
یاد اس کی اتنی خوب نہیں میر باز آ
نادان پھر وہ جی سے بھلایا نہ جائے گا
اب تو جاتے ہیں بت کدے سے میر
پھر ملیں گے اگر خدا لایا
کیا کہوں تم سے میں کہ کیا ہے عشق
جان کا روگ ہے بلا ہے عشق
میر جی زرد ہوتے جاتے ہیں
کیا کہیں تُم نے بھی کیا ہے عشق؟
یارو مجھے معاف رکھو، میں نشے میں ہوں
اب دو تو جام خالی ہی دو، میں نشے میں ہوں
ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیے ہو تا ہے کیا
فقیرانہ آئے صدا کرچلے
میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے
دکھائی دیے یوں کہ بے خود کیا
ہمیں آپ سے بھی جدا کر چلے
عشق میں جی کو صبر و تاب کہاں
اُس سے آنکھیں لگیں تو خواب کہاں
دیکھ تو دل کہ جاں سے اُٹھتا ہے
یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے
بیٹھنے کون دے ہے پھر اُس کو
جو ترے آستاں سے اُٹھتا ہے
کبھو جائے گی جو اُدھر صبا تو یہ کہیو اُس سے کہ بے وفا
مگر ایک میر شکستہ پا، ترے باغِ تازہ میں خار تھا
اب تو چپ لگ گئی ہے حیرت سے
پھر کھلے گی زبان، جب کی بات
اس عہد میں الہی محبت کو کیا ہوا
چھوڑا وفا کو ان نے مروت کو کیا ہوا
امیدوارِ وعدہء دیدار مرچلے
آتے ہی آتے یارو قامت کو کیا ہوا
چمن میں گل نے جو کل دعویِ جمال کیا
جمالِ یار نے منھ اُس کا خوب لال کیا
شکوہ کروں میں کب تک اُس اپنے مہرباں کا
القصہ رفتہ رفتہ دشمن ہوا ہے جاں کا
ابتدا ہی میں مرگئے سب یار
عشق کی کون انتہا لایا
ہمارے آگے ترا جب کسو نے نام لیا
دلِ ستم زدہ کو ہم نے تھام تھام لیا
گل کو محبوب ہم قیاس کیا
فرق نکلا بہت جو باس کیا
اشک آنکھوں میں کب نہیں آتا
لہو آتا ہے جب نہیں آتا
تیغ ستم سے اس کی مرا سر جدا ہوا
شکر خدا کہ حقِ محبت ادا ہوا
کیا کہیے کیا رکھے ہیں ہم تجھ سے یار خواہش
یک جان و صد تمنّا، یک دل ہزار خواہش
آرزوئیں ہزار رکھتے ہیں
تو بھی ہم دل کو مار رکھتے ہیں
ہم رو رو کے دردِ دلِ دیوانہ کہیں گے
جی میں ہے کہوں حال غریبانہ کہیں گے
میر دریا ہے سنے شعر زبانی اس کی
اللہ اللہ رے طبیعت کی روانی اس کی
موسم ہے ، نکلے شاخوں سے پتّے ہرے ہرے
پودے چمن میں پھولوں سے دیکھے بھرے بھرے
مہر کی تجھ سے توقع تھی ستم گر نکلا
موم سمجھے تھے ترے دل کو سو پتھر نکلا
دل مجھے اُس گلی میں لے جا کر
اور بھی خاک میں ملا لایا
ایسی ہے میر کی بھی مدت سے رونی صورت
چہرے پہ اُس کے کس دن آنسو رواں نہ پایا
جو اس شور سے میر روتا رہے گا
تو ہمسایہ کاہے کو سوتا رہے گا
کام پل میں مرا تمام کیا
غرض اُس شوخ نے بھی کام کیا
کس کی مسجد، کیسے بت خانے ، کہاں کے شیخ و شاب
ایک گردش میں تری چشمِ سیہ کی سب خراب
کیا کہیں اپنی اُس کی شب کی بات
کہیے ہووے جو کچھ بھی ڈھب کی بات
آوے گی میری قبر سے آواز میرے بعد
اُبھریں گے عشق دل سے ترے راز میرے بعد
غیروں سے وے اشارے ہم سے چھپا چھپا کر
پھر دیکھنا اِدھر کو آنکھیں ملا ملا کر
دل وہ نگر نہیں کہ پھر آباد ہو سکے
بچھتاؤگے، سنو ہو، یہ بستی اُجاڑ کر
جی میں تھا اس سے ملیے تو کیا کیا نہ کہیے میر
پر جب ملے تو رہ گئے ناچار دیکھ کر
میر کیا بات اس کے ہونٹوں کی
جینا دوبھر ہوا مسیحا پر
بالیں پہ میری آوے گا تُو گھر سے جب تلک
کرجاؤں گا سفر میں دنیا سے تب تلک
ہم نے اپنی سی کی بہت لیکن
مرضِ عشق کا علاج نہیں
اس کے کُوچے میں نہ کرشورِ قیامت کا ذکر
شیخ! یاں ایسے تو ہنگامے ہوا کرتے ہیں
کیا کہیں میر جی ہم تم سے معاش اپنی غرض
غم کو کھایا کرے ہیں ، لوہو پیا کرتے ہیں
بنی نہ اپنی تو اُس جنگ جُو سے ہرگز میر
لڑائیں جب سے ہم آنکھیں لڑائیاں دیکھیں
ملنے لگے ہو دیر دیر، دیکھے کیا ہے کیا نہیں
تم تو کرو ہو صاحبی، بندے میں کچھ رہا نہیں
عام ہے یار کی تجلی میر
خاص موسیٰ و کوہِ طُور نہیں
موئے سہتے سہتے جفاکاریاں
کوئی ہم سے سیکھے وفاداریاں
نہ بھائی ہماری تو قدرت نہیں!
کھنچیں میر تجھ سے ہی یہ خواریاں
لب ترے لعلِ ناب ہیں دونوں
پر تمامی عتاب ہیں دونوں
رونا آنکھوں کا روئیے کب تک
پھوٹنے ہی کے باب ہیں دونوں
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں