طبیعت ان دنوں بیگانۂ غم ہوتی جاتی ہے
مرے حصے کی گویا ہر خوشی کم ہوتی جاتی ہے
سحر ہونے کو ہے، بیدار شبنم ہوتی جاتی ہے
خوشی منجملۂ اسبابِ ماتم ہوتی جاتی ہے
قیامت کیا یہ اے حسنِ دو عالم ہوتی جاتی ہے
کہ محفل تو وہی ہے دل کشی کم ہوتی جاتی ہے
وہی مے خانہ و صہبا، وہی ساغر، وہی شیشہ
مگر آوازِ نوشا نوش مدّھم ہوتی جاتی ہے
وہی ہیں شاہدو ساقی، مگر دل بجھتا جاتا ہے
وہی ہے شمع، لیکن روشنی کم ہوتی جاتی ہے
وہی شورش ہے لیکن جیسے موجِ تہ نشیں کوئی
وہی دل ہے مگر آواز مدّھم ہوتی جاتی ہے
وہی ہے زندگی لیکن جگرؔ یہ حال ہے اپنا
کہ جیسے زندگی سے زندگی کم ہوتی جاتی ہے
(جگرؔ مراد آبادی)
حسنِ کافر شباب کا عالم
ہم سے پا تک شراب کا عالم
عرق آلود چہرہ تاباں
شبنم و آفتاب کا عالم
وہ مری عرض شوقِ بیحد پر
کچھ حیا، کچھ عتاب کا عالم
اللہ اللہ وہ امتزاجِ لطیف
شوخیوں میں حجاب کا عالم
ہمہ نورد سرور کی دُنیا
ہمہ حُسن و شباب کا عالم
وہ لبِ جوئبار و موسمِ گل
وہ شب مہتاب کا عالم
زانوئے شوق پر وہ پچھلے پہر
نرگس نیم خواب کا عالم
دیر تک احتلاطِ راز و نیاز
یک بیک اجتناب کا عالم
لاکھ رنگیں بیانیوں پہ میری
اِک سادہ جواب کا عالم
غم کی ہر موج موجِ طوفاں خیز
دل کا عالم، حباب کا عالم
دلِ مطرب سمجھ سکے شاید
اِک شکستہ رباب کا عالم
وہ سماں آج بھی ہے یاد جگر
ہاں مگر جیسے خواب کا عالم
***
وہ احساسِ شوقِ جواں اوّل اوّل
وہ اِک عالمِ گُل فشاں اوّل اوّل
وہ خود ساختہ اِک طلسمِ تمنّا!
وہ تالیف و تصنیفِ جاں اوّل اوّل
وہ موہوم سا اک جہانِ محبّت
وہ مبہم سی اِک داستاں اوّل اوّل
تخیل میں رنگینیاں، رفتہ رفتہ
تصور میں تصویرِ جاں اوّل اوّل
وہ اِک کلفتِ جاں تازہ تازہ
وہ اِک عشرتِ سرگراں اوّل اوّل
مجسّم وہ تعبیرِ خوابِ محبت
وہ نظارہ ناگہاں اوّل اوّل
وہ اک پیکرِ حسن و معصوم و سادہ
وہ اِک جلوۂ بے اماں اوّل اوّل
تکلم میں بے ربط سا اِک تسلسل
خموشی میں حسنِ بیاں اوّل اوّل
جگرؔ آہ انجام و آغازِ الفت
سکوت آخر آخر، فغاں اوّل اوّل
(جگرؔ مراد آبادی)
جان کر منجملۂ خاصانِ مے خانہ مجھے
مُدّتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ مجھے
ننگِ مے خانہ تھا میں ساقی نے یہ کیا کر دیا
پینے والے کہہ اُٹھے "یا پیرِ مے خانہ" مجھے
سبزہ و گل، مو ج و دریا، انجم و خورشید و ماہ
اِک تعلق سب سے ہے لیکن رقیبانہ مجھے
زندگی میں آ گیا جب کوئی وقتِ امتحاں
اس نے دیکھا ہے جگرؔ بے اختیارانہ مجھے
(جگرؔ مراد آبادی)
جگر مراد آبادی کی آواز میں غزل
دنیا کے ستم یاد نہ اپنی ہی وفا یاد
اب مجھ کو نہیں کچھ بھی محبت کے سوا یاد
میں شکوہ بلب تھا مجھے یہ بھی نہ رہا یاد
شاید کہ مرے بھولنے والے نے کیا یاد
کیا جانیے کیا ہو گیا اربابِ جنوں کو
جینے کی ادا یاد نہ مرنے کی ادا یاد
جب کوئی حسیں ہوتا ہے سرگرمِ نوازش
اس وقت وہ کچھ اور بھی آتے ہیں سوا یاد
میں ترکِ رہ و رسمِ جنوں کر ہی چکا تھا
کیوں آ گئی ایسے میں تری لغزشِ پا یاد
مدت ہوئی اک حادثۂ عشق کو لیکن
اب تک ہے ترے دل کے دھڑکنے کی صدا یاد
کیا لطف کہ میں اپنا پتہ آپ بتاؤں
کیجیے کوئی بھولی ہوئی خاص اپنی ادا یاد
***
دِیدہء یار بھی پُرنم ہے، خُدا خیر کرئے!
آج کچھ اور ہی عالم ہے، خُدا خیر کرئے!
اُس طرف غیرتِ خُورشیدِ جمال اور اِدھر
زعم خوددارئ شبنم ہے، خُدا خیر کرئے!
دِل ہے پہلُو میں کہ مچلا ہی چلا جاتا ہے
اور خُود سے بھی وہ برہم ہے، خُدا خیر کرئے!
رازِ بیتابئ دل کچھ نہیں کُھلتا، لیکن
کل سے درد آج بہت کم ہے، خُدا خیر کرئے!
حُسن ہر گام پہ ہے سایہ فگن، دام فگن
عشق آزادِ دو عالم ہے، خُدا خیر کرئے!
جِگر مُراد آبادی
مرے حصے کی گویا ہر خوشی کم ہوتی جاتی ہے
سحر ہونے کو ہے، بیدار شبنم ہوتی جاتی ہے
خوشی منجملۂ اسبابِ ماتم ہوتی جاتی ہے
قیامت کیا یہ اے حسنِ دو عالم ہوتی جاتی ہے
کہ محفل تو وہی ہے دل کشی کم ہوتی جاتی ہے
وہی مے خانہ و صہبا، وہی ساغر، وہی شیشہ
مگر آوازِ نوشا نوش مدّھم ہوتی جاتی ہے
وہی ہیں شاہدو ساقی، مگر دل بجھتا جاتا ہے
وہی ہے شمع، لیکن روشنی کم ہوتی جاتی ہے
وہی شورش ہے لیکن جیسے موجِ تہ نشیں کوئی
وہی دل ہے مگر آواز مدّھم ہوتی جاتی ہے
وہی ہے زندگی لیکن جگرؔ یہ حال ہے اپنا
کہ جیسے زندگی سے زندگی کم ہوتی جاتی ہے
(جگرؔ مراد آبادی)
حسنِ کافر شباب کا عالم
ہم سے پا تک شراب کا عالم
عرق آلود چہرہ تاباں
شبنم و آفتاب کا عالم
وہ مری عرض شوقِ بیحد پر
کچھ حیا، کچھ عتاب کا عالم
اللہ اللہ وہ امتزاجِ لطیف
شوخیوں میں حجاب کا عالم
ہمہ نورد سرور کی دُنیا
ہمہ حُسن و شباب کا عالم
وہ لبِ جوئبار و موسمِ گل
وہ شب مہتاب کا عالم
زانوئے شوق پر وہ پچھلے پہر
نرگس نیم خواب کا عالم
دیر تک احتلاطِ راز و نیاز
یک بیک اجتناب کا عالم
لاکھ رنگیں بیانیوں پہ میری
اِک سادہ جواب کا عالم
غم کی ہر موج موجِ طوفاں خیز
دل کا عالم، حباب کا عالم
دلِ مطرب سمجھ سکے شاید
اِک شکستہ رباب کا عالم
وہ سماں آج بھی ہے یاد جگر
ہاں مگر جیسے خواب کا عالم
***
وہ احساسِ شوقِ جواں اوّل اوّل
وہ اِک عالمِ گُل فشاں اوّل اوّل
وہ خود ساختہ اِک طلسمِ تمنّا!
وہ تالیف و تصنیفِ جاں اوّل اوّل
وہ موہوم سا اک جہانِ محبّت
وہ مبہم سی اِک داستاں اوّل اوّل
تخیل میں رنگینیاں، رفتہ رفتہ
تصور میں تصویرِ جاں اوّل اوّل
وہ اِک کلفتِ جاں تازہ تازہ
وہ اِک عشرتِ سرگراں اوّل اوّل
مجسّم وہ تعبیرِ خوابِ محبت
وہ نظارہ ناگہاں اوّل اوّل
وہ اک پیکرِ حسن و معصوم و سادہ
وہ اِک جلوۂ بے اماں اوّل اوّل
تکلم میں بے ربط سا اِک تسلسل
خموشی میں حسنِ بیاں اوّل اوّل
جگرؔ آہ انجام و آغازِ الفت
سکوت آخر آخر، فغاں اوّل اوّل
(جگرؔ مراد آبادی)
جان کر منجملۂ خاصانِ مے خانہ مجھے
مُدّتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ مجھے
ننگِ مے خانہ تھا میں ساقی نے یہ کیا کر دیا
پینے والے کہہ اُٹھے "یا پیرِ مے خانہ" مجھے
سبزہ و گل، مو ج و دریا، انجم و خورشید و ماہ
اِک تعلق سب سے ہے لیکن رقیبانہ مجھے
زندگی میں آ گیا جب کوئی وقتِ امتحاں
اس نے دیکھا ہے جگرؔ بے اختیارانہ مجھے
(جگرؔ مراد آبادی)
جگر مراد آبادی کی آواز میں غزل
دنیا کے ستم یاد نہ اپنی ہی وفا یاد
اب مجھ کو نہیں کچھ بھی محبت کے سوا یاد
میں شکوہ بلب تھا مجھے یہ بھی نہ رہا یاد
شاید کہ مرے بھولنے والے نے کیا یاد
کیا جانیے کیا ہو گیا اربابِ جنوں کو
جینے کی ادا یاد نہ مرنے کی ادا یاد
جب کوئی حسیں ہوتا ہے سرگرمِ نوازش
اس وقت وہ کچھ اور بھی آتے ہیں سوا یاد
میں ترکِ رہ و رسمِ جنوں کر ہی چکا تھا
کیوں آ گئی ایسے میں تری لغزشِ پا یاد
مدت ہوئی اک حادثۂ عشق کو لیکن
اب تک ہے ترے دل کے دھڑکنے کی صدا یاد
کیا لطف کہ میں اپنا پتہ آپ بتاؤں
کیجیے کوئی بھولی ہوئی خاص اپنی ادا یاد
***
دِیدہء یار بھی پُرنم ہے، خُدا خیر کرئے!
آج کچھ اور ہی عالم ہے، خُدا خیر کرئے!
اُس طرف غیرتِ خُورشیدِ جمال اور اِدھر
زعم خوددارئ شبنم ہے، خُدا خیر کرئے!
دِل ہے پہلُو میں کہ مچلا ہی چلا جاتا ہے
اور خُود سے بھی وہ برہم ہے، خُدا خیر کرئے!
رازِ بیتابئ دل کچھ نہیں کُھلتا، لیکن
کل سے درد آج بہت کم ہے، خُدا خیر کرئے!
حُسن ہر گام پہ ہے سایہ فگن، دام فگن
عشق آزادِ دو عالم ہے، خُدا خیر کرئے!
جِگر مُراد آبادی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں