اچھی زندگی گزارنے کے لیے اور تھکاوٹ دور کرنے کا علاج

 اچھی زندگی کزارنے کے لیےہر دور  میں   قدرت  انسان کی  استعمال کردہ چیزوں میں گہرے راز اور سبق مہیا کرتی رہتی ہے

استعمال کی چیزوں میں اس لیےانسان ان سے بڑے انہماک سے وابسطہ ہوتا اور ان کو اپنے اوپر اس طرح حاوی کر لیتا ہےکہ ان کے بغیر جینے کا تصور بھی نہیں کر سکتا

حالانکہ ان کے بغیر بھی جیا جا سکتا ہےمگر انسان اسے اپنی کمزوری بنا لیتا ہے بہتر تو یہی ہے کہ اسے کمزوری نہ بنایا جائےلیکن اگراسے اپنی عادت بنا ہی لیا ہےتو تھوڑا سا غور کرنے پر ہم اس میں سے اپنی زندگی گزارنے کا ڈھنگ سیکھ سکتے ہیں

آج کے دور میں ہر کوئی کمپیوٹر اور موبائل فون کا دیوانہ ہے یا یوں کہہ لیں کہ یہ ہماری ایک بنیادی ضرورت بن چکے ہیں  مگر ہم اس میں سے ایک بہت اہم سبق سیکھ سکتے ہیں اگر غور کر لیں تو    جس طرح موبائل فون یا لیپ ٹاپ کی بیٹری کو چارج کرنا پڑتا ہے اسی طرح انسانی جسم کو بھی چارجنگ کی ضرورت ہوتی ہے  

آپ کے مشاہدے میں ہے کہ اگر موبائل فون کی بیٹری کو فل چاج نہ کیا جائے تو اس کی بیٹری جلد ختم ہو جاتی ہے  اسی طرح انسان کو چوبیس گھنٹے میں سات سے آٹھ گھنٹے کی نیند درکار ہوتی ہے 

اور اگر آپ اپنے جسم کو آدھا چارج کرتے ہیں یعنی کم سوتے ہیں تو جسم جلدی تھک جاتا ہےاور سارا دن تھکاوٹ محسوس ہوتی رہتی ہے     اب یہاں کچھ لوگ سوال کریں گےکہ ایک کام کرنے والا شخص یا گھریلوعورت جن کی ذمے بچوں اور اور گھر کے دیگر افراد کی دیکھ بھال ان کے کھانا پکانا وغیرہ وغیرہ وہ لوگ کیسے نیند پوری کریں  

جاری ہےانشاء اللہ باقی تحریر بعد میں

کیا ہمارے ملک میں جمہوریت ہے یا گدی نشینی سسٹم رائج ہے - Democracy In Pakistan

 کیا ہمارے ملک میں جمہوریت ہے یا گدی نشینی سسٹم رائج ہے 

کیا یہ جمہوریت ہے کہ باپ کے بعد بیٹا الیکشن لڑے گا - یا پاڑی کا صدر خاندان سے ہو گا - آپ کیا کہتے ہیں - 

اپنے کومنٹ کرتے وقت اخلاق کو مدنظر رکھیں

Benefits Of Personal Blogging - BLOG FOR STUDENT - گوگل بلاگ کے فائدے - آپ گھر بیٹھے کما سکتے ہیں - EARN ON GOOGLE BLOG

گوگل بلاگ کے فائدے - آپ گھر بیٹھے کما سکتے ہیں 

مزید پڑھنے سے پہلے اگر آپ بلاگ بنانے کے بارے میں معلومات لینا چاہتے ہیں تو کومنٹ میں لکھ دیجیے


ہم میں سے اکثر لوگ آج کے زمانے میں اپنا وقت سوشل میڈیا پر گزارتے ہیں - کچھ تو ہر دن آٹھ سے بارہ گھنٹے بھی سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں - خاص کر نوجوان لوگ تو اس سے بھی زیادہ وقت سوشل میڈیا کو دیتے ہیں


کیا آپ جانتے ہیں کہ اگر آپ اپنے موبائل پر جہاں فیس بک یا ٹک ٹاک کو ٹائم دیتے ہیں وہیں اگر آپ اپنا پیج یعنی گوگل بلاگ بنا لیں اور روزانہ صرف ایک گھنٹہ وقت دیں تو آپ اس سے پیسے بھی کما سکتے ہیں جی ہاں -


جس طرح آپ دیگر سوشل میڈیاز پر اپنی اپنی پوسٹیں شئیر کرتے ہیں اسی طرح آپ اپنی پسند کی پوسٹ بنا کر اپنے ذاتی گوگل بلاگ پر اپلوڈ کر دیں 


بلاگ بنانے کے لیے آپ کو جی میل اکاونٹ چاہیے - جی میل بنانے کے بعد آپ گوگل میں گوگل بلاگ سرچ کریں - اور گوگل بلاگ پر کلک کر کے باقی راہنمائی حاصل کریں - اس کے علاوہ آپ اپنا یوٹیوب چینل بنائیں اور ویڈیو بنا کر پیسے کمائیں


اور اگر آپ اپنی پوسٹ فیس بک پرشئیر کرنا چاہتے ہیں تو اپنے بلاگ کی پوسٹ شئیر کیجے لاکھوں کمائیے


اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ گوگل بلاگ سے کتنا کما سکتےہیں - بہت آسان جتنا آپ ٹائم دیں گے - اور جب آپ کا بلاگ سرچ میں آ جائے گا ،اور آپ کے بلاگ پر ٹریفک یعنی لوگ آئیں گے تو اس کے آپ کو پیسے ملیں گے - دوسرا گوگل والے آپ کے بلاگ پر مختلف کمپنیوں کے اشتہار لگائیں گے لوگ دیکھیں گے تو اس کے آپ کو پیسے ملیں گے

کومنٹ میں مزید معلومات کے لیے لکھ دیں شکریہ

Earn with google blog - make money on google blog - work from home

سلام بحضور امام حسین علیہ اسلام کلام واصف علی واصف

سلام بحضور امام حسین علیہ اسلام کلام واصف علی واصف

السّلام اے نُورِ اوّل کے نشاں
السّلام اے راز دارِ کُن فکاں

السّلام اے داستانِ بے کسی
السّلام اے چارہ سازِ بے کساں

السّلام اے دستِ حق، باطل شکن
السّلام اے تاجدارِ ہر زماں

السّلام اے رہبرِ علمِ لَدُن
السّلام اے افتخارِ عارفاں

السّلام اے راحتِ دوشِ نبی
السّلام اے راکبِ نوکِ سناں

السّلام اے بوترابی کی دلیل
السّلام اے شاہبازِ لا مکاں

السّلام اے ساجدِ بے آرزو
السّلام اے راز دارِ قُدسیاں

السّلام اے ذوالفقارِ حیدری
السّلام اے کشتۂ تسلیمِ جاں

السّلام اے مستیٔ جامِ نجف
السّلام اے جنبشِ کون و مکاں

السّلام اے رازِ قرآنِ مبیں
السّلام اے ناطقِ رازِ نہاں

السّلام اے ہم نشینِ ریگِ دشت
السّلام اے کج کلاہِ خسرواں

السّلام اے دُرِ دینِ مُصطفٰی
السّلام اے معدنِ علمِ رواں

السّلام اے گوہرِ عینِ علی
دینِ پیغمبر کے عنوانِ جلی

سلام امام حسین علیہ اسلام کلام حسرت موہانی


سلام امام حسین علیہ اسلام کلام حسرت موہانی
امامِ برحقِ اہلِ رضا سلام علیک
شہیدِ معرکۂ کربلا سلام علیک

کلِ مرادِ ولایت حسین ابنِ علی
تتمۂ شرفِ مصطفٰی سلام علیک

ثبوت یہ ہے کہ نُورِ شہادتِ کُبرٰی
تری جبیں سے نمایاں ہوا، سلام علیک

عبث ہے اور کہیں راہِ صبر و حق کی تلاش
تری مثال ہے جب رہنما، سلام علیک

ترے طفیل مِیں، حسرت بھی ہو شہیدِ وفا
یہی دعا ہے، یہی مدّعا، سلام علیک

سلام نذرانہءِ عقیدت امام علیہ السلام از مرزا اسد اللہ خاں غالب

سلام نذرانہءِ عقیدت امام علیہ السلام از مرزا اسد اللہ خاں غالب


سلام اسے کہ اگر بادشا کہیں اُس کو
تو پھر کہیں کہ کچھ اِس سے سوا کہیں اُس کو

نہ بادشاہ نہ سلطاں، یہ کیا ستائش ہے؟
کہو کہ خامسِ آلِ عبا کہیں اُس کو

خدا کی راہ میں شاہی و خسروی کیسی؟
کہو کہ رہبرِ راہِ خدا کہیں اُس کو

خدا کا بندہ، خداوندگار بندوں کا
اگر کہیں نہ خداوند، کیا کہیں اُس کو؟

فروغِ جوہرِ ایماں، حسین ابنِ علی
کہ شمعِ انجمنِ کبریا کہیں اُس کو

کفیلِ بخششِ اُمّت ہے، بن نہیں پڑتی
اگر نہ شافعِ روزِ جزا کہیں اُس کو

مسیح جس سے کرے اخذِ فیضِ جاں بخشی
ستم ہے کُشتۂ تیغِ جفا کہیں اُس کو

وہ جس کے ماتمیوں پر ہے سلسبیل سبیل
شہیدِ تشنہ لبِ کربلا کہیں اُس کو

عدو کے سمعِ رضا میں جگہ نہ پائے وہ بات
کہ جنّ و انس و ملَک سب بجا کہیں اُس کو

بہت ہے پایۂ گردِ رہِ حسین بلند
بہ قدرِ فہم ہے اگر کیمیا کہیں اُس کو

نظارہ سوز ہے یاں تک ہر ایک ذرّۂ خاک
کہ ایک جوہرِ تیغِ قضا کہیں اُس کو

ہمارے درد کی یا رب کہیں دوا نہ ملے
اگر نہ درد کی اپنے دوا کہیں اُس کو

ہمارا منہ ہے کہ دَیں اس کے حُسنِ صبر کی داد؟
مگر نبی و علی مرحبا کہیں اُس کو

زمامِ ناقہ کف اُس کے میں ہے کہ اہلِ یقیں
پس از حسینِ علی پیشوا کہیں اُس کو

وہ ریگِ تفتۂ وادی پہ گام فرسا ہے
کہ طالبانِ خدا رہنما کہیں اُس کو

امامِ وقت کی یہ قدر ہے کہ اہلِ عناد
پیادہ لے چلیں اور ناسزا کہیں اُس کو

یہ اجتہاد عجب ہے کہ ایک دشمنِ دیں
علی سے آکے لڑے اور خطا کہیں اُس کو

یزید کو تو نہ تھا اجتہاد کا پایہ
بُرا نہ مانیئے گر ہم بُرا کہیں اُس کو

علی کے بعد حسن، اور حسن کے بعد حسین
کرے جو ان سے بُرائی، بھلا کہیں اُس کو؟

نبی کا ہو نہ جسے اعتقاد، کافر ہے
رکھے امام سے جو بغض، کیا کہیں اُس کو؟

بھرا ہے غالبِ دل خستہ کے کلام میں درد
غلط نہیں ہے کہ خونیں نوا کہیں اُس کو

میر تقی میر ، پسندیدہ اشعار


میر تقی میر کے مشہور زمانہ اشعار

الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماریِ دل نے آخر کام تمام کیا

نازکی اُس کے لب کی کیا کہئیے
پنکھڑی اِک گلاب کی سی ہے
میر اُن نیم باز آنکھوں میں 
ساری مستی شراب کی سی ہے

ہم فقیروں سے بے ادائی کیا 
آن بیٹھے جو تم نے پیار کیا 
سخت کافر تھا جن نے پہلے میر
مذہبِ عشق اختیار کیا 

قدررکھتی نہ تھی متاعِ دل
سارے عالم میں مَیں دکھا لایا

میرے سنگِ مزار پر فرہاد
رکھ کے تیشہ کہے ہے یا اُستاد
خاک بھی سر پہ ڈالنے کو نہیں
کس خرابہ میں ہم ہوئے آباد

جس سر کو غرور آج ہے یاں تاج وری کا
کل اس پہ یہیں شور ہے پھر نوحہ گری کا

وہ جو پی کر شراب نکلے گا
کس طرح آفتاب نکلے گا

یاد اس کی اتنی خوب نہیں میر باز آ
نادان پھر وہ جی سے بھلایا نہ جائے گا

اب تو جاتے ہیں بت کدے سے میر
پھر ملیں گے اگر خدا لایا

کیا کہوں تم سے میں کہ کیا ہے عشق
جان کا روگ ہے بلا ہے عشق
میر جی زرد ہوتے جاتے ہیں
کیا کہیں تُم نے بھی کیا ہے عشق؟

یارو مجھے معاف رکھو، میں نشے میں ہوں
اب دو تو جام خالی ہی دو، میں نشے میں ہوں

ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیے ہو تا ہے کیا

فقیرانہ آئے صدا کرچلے
میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے
دکھائی دیے یوں کہ بے خود کیا
ہمیں آپ سے بھی جدا کر چلے

عشق میں جی کو صبر و تاب کہاں
اُس سے آنکھیں لگیں تو خواب کہاں

دیکھ تو دل کہ جاں سے اُٹھتا ہے
یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے
بیٹھنے کون دے ہے پھر اُس کو
جو ترے آستاں سے اُٹھتا ہے


کبھو جائے گی جو اُدھر صبا تو یہ کہیو اُس سے کہ بے وفا
مگر ایک میر شکستہ پا، ترے باغِ تازہ میں خار تھا

اب تو چپ لگ گئی ہے حیرت سے
پھر کھلے گی زبان، جب کی بات

اس عہد میں‌ الہی محبت کو کیا ہوا
چھوڑا وفا کو ان نے مروت کو کیا ہوا
امیدوارِ وعدہء دیدار مرچلے
آتے ہی آتے یارو قامت کو کیا ہوا

چمن میں گل نے جو کل دعویِ جمال کیا
جمالِ یار نے منھ اُس کا خوب لال کیا

شکوہ کروں میں کب تک اُس اپنے مہرباں کا
القصہ رفتہ رفتہ دشمن ہوا ہے جاں کا

ابتدا ہی میں مرگئے سب یار
عشق کی کون انتہا لایا

ہمارے آگے ترا جب کسو نے نام لیا
دلِ ستم زدہ کو ہم نے تھام تھام لیا

گل کو محبوب ہم قیاس کیا
فرق نکلا بہت جو باس کیا

اشک آنکھوں میں کب نہیں‌ آتا
لہو آتا ہے جب نہیں آتا

تیغ ستم سے اس کی مرا سر جدا ہوا 
شکر خدا کہ حقِ محبت ادا ہوا

کیا کہیے کیا رکھے ہیں ہم تجھ سے یار خواہش
یک جان و صد تمنّا، یک دل ہزار خواہش

آرزوئیں ہزار رکھتے ہیں
تو بھی ہم دل کو مار رکھتے ہیں

ہم رو رو کے دردِ دلِ دیوانہ کہیں گے
جی‌ میں ہے کہوں حال غریبانہ کہیں گے

میر دریا ہے سنے شعر زبانی اس کی
اللہ اللہ رے طبیعت کی روانی اس کی

موسم ہے ، نکلے شاخوں سے پتّے ہرے ہرے
پودے چمن میں پھولوں سے دیکھے بھرے بھرے

مہر کی تجھ سے توقع تھی ستم گر نکلا
موم سمجھے تھے ترے دل کو سو پتھر نکلا

دل مجھے اُس گلی میں لے جا کر
اور بھی خاک میں ملا لایا

ایسی ہے میر کی بھی مدت سے رونی صورت
چہرے پہ اُس کے کس دن آنسو رواں نہ پایا

جو اس شور سے میر روتا رہے گا
تو ہمسایہ کاہے کو سوتا رہے گا

کام پل میں مرا تمام کیا
غرض اُس شوخ نے بھی کام کیا

کس کی مسجد، کیسے بت خانے ، کہاں کے شیخ و شاب
ایک گردش میں تری چشمِ سیہ کی سب خراب

کیا کہیں اپنی اُس کی شب کی بات
کہیے ہووے جو کچھ بھی ڈھب کی بات

آوے گی میری قبر سے آواز میرے بعد
اُبھریں گے عشق دل سے ترے راز میرے بعد

غیروں سے وے اشارے ہم سے چھپا چھپا کر
پھر دیکھنا اِدھر کو آنکھیں ملا ملا کر

دل وہ نگر نہیں کہ پھر آباد ہو سکے
بچھتاؤگے، سنو ہو، یہ بستی اُجاڑ کر

جی میں تھا اس سے ملیے تو کیا کیا نہ کہیے میر
پر جب ملے تو رہ گئے ناچار دیکھ کر

میر کیا بات اس کے ہونٹوں کی
جینا دوبھر ہوا مسیحا پر

بالیں پہ میری آوے گا تُو گھر سے جب تلک
کرجاؤں گا سفر میں دنیا سے تب تلک

ہم نے اپنی سی کی بہت لیکن
مرضِ عشق کا علاج نہیں

اس کے کُوچے میں نہ کرشورِ قیامت کا ذکر
شیخ! یاں ایسے تو ہنگامے ہوا کرتے ہیں

کیا کہیں میر جی ہم تم سے معاش اپنی غرض
غم کو کھایا کرے ہیں ، لوہو پیا کرتے ہیں

بنی نہ اپنی تو اُس جنگ جُو سے ہرگز میر
لڑائیں جب سے ہم آنکھیں لڑائیاں دیکھیں

ملنے لگے ہو دیر دیر، دیکھے کیا ہے کیا نہیں
تم تو کرو ہو صاحبی، بندے میں کچھ رہا نہیں

عام ہے یار کی تجلی میر
خاص موسیٰ و کوہِ طُور نہیں

موئے سہتے سہتے جفاکاریاں
کوئی ہم سے سیکھے وفاداریاں
نہ بھائی ہماری تو قدرت نہیں!
کھنچیں میر تجھ سے ہی یہ خواریاں

لب ترے لعلِ ناب ہیں دونوں
پر تمامی عتاب ہیں دونوں
رونا آنکھوں کا روئیے کب تک
پھوٹنے ہی کے باب ہیں دونوں



اردو كی بہترین ویب سائٹ كے لیے یہاں سرچ كریں