سلام بحضور امام حسین علیہ اسلام کلام واصف علی واصف

سلام بحضور امام حسین علیہ اسلام کلام واصف علی واصف

السّلام اے نُورِ اوّل کے نشاں
السّلام اے راز دارِ کُن فکاں

السّلام اے داستانِ بے کسی
السّلام اے چارہ سازِ بے کساں

السّلام اے دستِ حق، باطل شکن
السّلام اے تاجدارِ ہر زماں

السّلام اے رہبرِ علمِ لَدُن
السّلام اے افتخارِ عارفاں

السّلام اے راحتِ دوشِ نبی
السّلام اے راکبِ نوکِ سناں

السّلام اے بوترابی کی دلیل
السّلام اے شاہبازِ لا مکاں

السّلام اے ساجدِ بے آرزو
السّلام اے راز دارِ قُدسیاں

السّلام اے ذوالفقارِ حیدری
السّلام اے کشتۂ تسلیمِ جاں

السّلام اے مستیٔ جامِ نجف
السّلام اے جنبشِ کون و مکاں

السّلام اے رازِ قرآنِ مبیں
السّلام اے ناطقِ رازِ نہاں

السّلام اے ہم نشینِ ریگِ دشت
السّلام اے کج کلاہِ خسرواں

السّلام اے دُرِ دینِ مُصطفٰی
السّلام اے معدنِ علمِ رواں

السّلام اے گوہرِ عینِ علی
دینِ پیغمبر کے عنوانِ جلی

سلام امام حسین علیہ اسلام کلام حسرت موہانی


سلام امام حسین علیہ اسلام کلام حسرت موہانی
امامِ برحقِ اہلِ رضا سلام علیک
شہیدِ معرکۂ کربلا سلام علیک

کلِ مرادِ ولایت حسین ابنِ علی
تتمۂ شرفِ مصطفٰی سلام علیک

ثبوت یہ ہے کہ نُورِ شہادتِ کُبرٰی
تری جبیں سے نمایاں ہوا، سلام علیک

عبث ہے اور کہیں راہِ صبر و حق کی تلاش
تری مثال ہے جب رہنما، سلام علیک

ترے طفیل مِیں، حسرت بھی ہو شہیدِ وفا
یہی دعا ہے، یہی مدّعا، سلام علیک

سلام نذرانہءِ عقیدت امام علیہ السلام از مرزا اسد اللہ خاں غالب

سلام نذرانہءِ عقیدت امام علیہ السلام از مرزا اسد اللہ خاں غالب


سلام اسے کہ اگر بادشا کہیں اُس کو
تو پھر کہیں کہ کچھ اِس سے سوا کہیں اُس کو

نہ بادشاہ نہ سلطاں، یہ کیا ستائش ہے؟
کہو کہ خامسِ آلِ عبا کہیں اُس کو

خدا کی راہ میں شاہی و خسروی کیسی؟
کہو کہ رہبرِ راہِ خدا کہیں اُس کو

خدا کا بندہ، خداوندگار بندوں کا
اگر کہیں نہ خداوند، کیا کہیں اُس کو؟

فروغِ جوہرِ ایماں، حسین ابنِ علی
کہ شمعِ انجمنِ کبریا کہیں اُس کو

کفیلِ بخششِ اُمّت ہے، بن نہیں پڑتی
اگر نہ شافعِ روزِ جزا کہیں اُس کو

مسیح جس سے کرے اخذِ فیضِ جاں بخشی
ستم ہے کُشتۂ تیغِ جفا کہیں اُس کو

وہ جس کے ماتمیوں پر ہے سلسبیل سبیل
شہیدِ تشنہ لبِ کربلا کہیں اُس کو

عدو کے سمعِ رضا میں جگہ نہ پائے وہ بات
کہ جنّ و انس و ملَک سب بجا کہیں اُس کو

بہت ہے پایۂ گردِ رہِ حسین بلند
بہ قدرِ فہم ہے اگر کیمیا کہیں اُس کو

نظارہ سوز ہے یاں تک ہر ایک ذرّۂ خاک
کہ ایک جوہرِ تیغِ قضا کہیں اُس کو

ہمارے درد کی یا رب کہیں دوا نہ ملے
اگر نہ درد کی اپنے دوا کہیں اُس کو

ہمارا منہ ہے کہ دَیں اس کے حُسنِ صبر کی داد؟
مگر نبی و علی مرحبا کہیں اُس کو

زمامِ ناقہ کف اُس کے میں ہے کہ اہلِ یقیں
پس از حسینِ علی پیشوا کہیں اُس کو

وہ ریگِ تفتۂ وادی پہ گام فرسا ہے
کہ طالبانِ خدا رہنما کہیں اُس کو

امامِ وقت کی یہ قدر ہے کہ اہلِ عناد
پیادہ لے چلیں اور ناسزا کہیں اُس کو

یہ اجتہاد عجب ہے کہ ایک دشمنِ دیں
علی سے آکے لڑے اور خطا کہیں اُس کو

یزید کو تو نہ تھا اجتہاد کا پایہ
بُرا نہ مانیئے گر ہم بُرا کہیں اُس کو

علی کے بعد حسن، اور حسن کے بعد حسین
کرے جو ان سے بُرائی، بھلا کہیں اُس کو؟

نبی کا ہو نہ جسے اعتقاد، کافر ہے
رکھے امام سے جو بغض، کیا کہیں اُس کو؟

بھرا ہے غالبِ دل خستہ کے کلام میں درد
غلط نہیں ہے کہ خونیں نوا کہیں اُس کو

میر تقی میر ، پسندیدہ اشعار


میر تقی میر کے مشہور زمانہ اشعار

الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماریِ دل نے آخر کام تمام کیا

نازکی اُس کے لب کی کیا کہئیے
پنکھڑی اِک گلاب کی سی ہے
میر اُن نیم باز آنکھوں میں 
ساری مستی شراب کی سی ہے

ہم فقیروں سے بے ادائی کیا 
آن بیٹھے جو تم نے پیار کیا 
سخت کافر تھا جن نے پہلے میر
مذہبِ عشق اختیار کیا 

قدررکھتی نہ تھی متاعِ دل
سارے عالم میں مَیں دکھا لایا

میرے سنگِ مزار پر فرہاد
رکھ کے تیشہ کہے ہے یا اُستاد
خاک بھی سر پہ ڈالنے کو نہیں
کس خرابہ میں ہم ہوئے آباد

جس سر کو غرور آج ہے یاں تاج وری کا
کل اس پہ یہیں شور ہے پھر نوحہ گری کا

وہ جو پی کر شراب نکلے گا
کس طرح آفتاب نکلے گا

یاد اس کی اتنی خوب نہیں میر باز آ
نادان پھر وہ جی سے بھلایا نہ جائے گا

اب تو جاتے ہیں بت کدے سے میر
پھر ملیں گے اگر خدا لایا

کیا کہوں تم سے میں کہ کیا ہے عشق
جان کا روگ ہے بلا ہے عشق
میر جی زرد ہوتے جاتے ہیں
کیا کہیں تُم نے بھی کیا ہے عشق؟

یارو مجھے معاف رکھو، میں نشے میں ہوں
اب دو تو جام خالی ہی دو، میں نشے میں ہوں

ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیے ہو تا ہے کیا

فقیرانہ آئے صدا کرچلے
میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے
دکھائی دیے یوں کہ بے خود کیا
ہمیں آپ سے بھی جدا کر چلے

عشق میں جی کو صبر و تاب کہاں
اُس سے آنکھیں لگیں تو خواب کہاں

دیکھ تو دل کہ جاں سے اُٹھتا ہے
یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے
بیٹھنے کون دے ہے پھر اُس کو
جو ترے آستاں سے اُٹھتا ہے


کبھو جائے گی جو اُدھر صبا تو یہ کہیو اُس سے کہ بے وفا
مگر ایک میر شکستہ پا، ترے باغِ تازہ میں خار تھا

اب تو چپ لگ گئی ہے حیرت سے
پھر کھلے گی زبان، جب کی بات

اس عہد میں‌ الہی محبت کو کیا ہوا
چھوڑا وفا کو ان نے مروت کو کیا ہوا
امیدوارِ وعدہء دیدار مرچلے
آتے ہی آتے یارو قامت کو کیا ہوا

چمن میں گل نے جو کل دعویِ جمال کیا
جمالِ یار نے منھ اُس کا خوب لال کیا

شکوہ کروں میں کب تک اُس اپنے مہرباں کا
القصہ رفتہ رفتہ دشمن ہوا ہے جاں کا

ابتدا ہی میں مرگئے سب یار
عشق کی کون انتہا لایا

ہمارے آگے ترا جب کسو نے نام لیا
دلِ ستم زدہ کو ہم نے تھام تھام لیا

گل کو محبوب ہم قیاس کیا
فرق نکلا بہت جو باس کیا

اشک آنکھوں میں کب نہیں‌ آتا
لہو آتا ہے جب نہیں آتا

تیغ ستم سے اس کی مرا سر جدا ہوا 
شکر خدا کہ حقِ محبت ادا ہوا

کیا کہیے کیا رکھے ہیں ہم تجھ سے یار خواہش
یک جان و صد تمنّا، یک دل ہزار خواہش

آرزوئیں ہزار رکھتے ہیں
تو بھی ہم دل کو مار رکھتے ہیں

ہم رو رو کے دردِ دلِ دیوانہ کہیں گے
جی‌ میں ہے کہوں حال غریبانہ کہیں گے

میر دریا ہے سنے شعر زبانی اس کی
اللہ اللہ رے طبیعت کی روانی اس کی

موسم ہے ، نکلے شاخوں سے پتّے ہرے ہرے
پودے چمن میں پھولوں سے دیکھے بھرے بھرے

مہر کی تجھ سے توقع تھی ستم گر نکلا
موم سمجھے تھے ترے دل کو سو پتھر نکلا

دل مجھے اُس گلی میں لے جا کر
اور بھی خاک میں ملا لایا

ایسی ہے میر کی بھی مدت سے رونی صورت
چہرے پہ اُس کے کس دن آنسو رواں نہ پایا

جو اس شور سے میر روتا رہے گا
تو ہمسایہ کاہے کو سوتا رہے گا

کام پل میں مرا تمام کیا
غرض اُس شوخ نے بھی کام کیا

کس کی مسجد، کیسے بت خانے ، کہاں کے شیخ و شاب
ایک گردش میں تری چشمِ سیہ کی سب خراب

کیا کہیں اپنی اُس کی شب کی بات
کہیے ہووے جو کچھ بھی ڈھب کی بات

آوے گی میری قبر سے آواز میرے بعد
اُبھریں گے عشق دل سے ترے راز میرے بعد

غیروں سے وے اشارے ہم سے چھپا چھپا کر
پھر دیکھنا اِدھر کو آنکھیں ملا ملا کر

دل وہ نگر نہیں کہ پھر آباد ہو سکے
بچھتاؤگے، سنو ہو، یہ بستی اُجاڑ کر

جی میں تھا اس سے ملیے تو کیا کیا نہ کہیے میر
پر جب ملے تو رہ گئے ناچار دیکھ کر

میر کیا بات اس کے ہونٹوں کی
جینا دوبھر ہوا مسیحا پر

بالیں پہ میری آوے گا تُو گھر سے جب تلک
کرجاؤں گا سفر میں دنیا سے تب تلک

ہم نے اپنی سی کی بہت لیکن
مرضِ عشق کا علاج نہیں

اس کے کُوچے میں نہ کرشورِ قیامت کا ذکر
شیخ! یاں ایسے تو ہنگامے ہوا کرتے ہیں

کیا کہیں میر جی ہم تم سے معاش اپنی غرض
غم کو کھایا کرے ہیں ، لوہو پیا کرتے ہیں

بنی نہ اپنی تو اُس جنگ جُو سے ہرگز میر
لڑائیں جب سے ہم آنکھیں لڑائیاں دیکھیں

ملنے لگے ہو دیر دیر، دیکھے کیا ہے کیا نہیں
تم تو کرو ہو صاحبی، بندے میں کچھ رہا نہیں

عام ہے یار کی تجلی میر
خاص موسیٰ و کوہِ طُور نہیں

موئے سہتے سہتے جفاکاریاں
کوئی ہم سے سیکھے وفاداریاں
نہ بھائی ہماری تو قدرت نہیں!
کھنچیں میر تجھ سے ہی یہ خواریاں

لب ترے لعلِ ناب ہیں دونوں
پر تمامی عتاب ہیں دونوں
رونا آنکھوں کا روئیے کب تک
پھوٹنے ہی کے باب ہیں دونوں



ہستی اپنی حباب کی سی ہے


ہستی اپنی حباب کی سی ہے
یہ نمائش سراب کی سی ہے
نازکی اُس کے لب کی کیا کہئیے
پنکھڑی اِک گلاب کی سی ہے
بار بار اُس کے در پہ جاتا ہوں
حالت اب اضطراب کی سی ہے
میں جو بولا، کہا کہ یہ آواز
اُسی خانہ خراب کی سی ہے
میر اُن نیم باز آنکھوں میں 
ساری مستی شراب کی سی ہے

میر تقی میر

سحر جیتے گی یا شام ِ غریبَاں دیکھتے رہنا ۔۔

سحر جیتے گی یا شام ِ غریبَاں دیکھتے رہنا
یہ سر جھکتے ہیں یا دیوار ِ زنداں دیکھتے رہنا
ہر اک اہل ِ لہو نے بازیِ ایماں لگا دی ہے
جو اب کی بار ہوگا وہ چراغاں دیکھتے رہنا
ادھر سے مدّعی گزریں گے ایقان ِ شریعت کے
نظر آجائے شاید کوئی انساں دیکھتے رہنا
اُسے تم لوگ کیا سمجھو گے جیسا ہم سمجھتے ہیں ! 
مگر پھر بھی کریں گے اس سے پیماں دیکھتے رہنا
سمجھ میں آگیا تیری نگاہوں کے الجھنے پر ! 
بھری محفل میں سب کا ہم کو حیراں دیکھتے رہنا
ہزاروں مہرباں اس راستے پر ساتھ آئیں گے 
میاں یہ دل ہے یہ جیب و گریباں دیکھتے رہنا
دبا رکھو یہ لہریں ایک دن آہستہ آہستہ
یہی بن جائیں گی ، تمہید ِ طوفاں دیکھتے رہنا
(مصطفیٰ زیدی )

لا پھر اک بار وہی بادہ و جام اے ساقی ۔ کلام علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ

علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ
لا پھر اک بار وہی بادہ و جام اے ساقی
ہاتھ آ جائے مجھے میرا مقام اے ساقی !
تین سو سال سے ہیں ہند کے میخانے بند
اب مناسب ہے ترا فیض ہو عام اے ساقی
مری مینائے غزل میں تھی ذرا سی باقی
شیخ کہتا ہے کہ ہے یہ بھی حرام اے ساقی
شیر مردوں سے ہوا بیشۂ تحقیق تہی
رہ گئے صوفی و ملا کے غلام اے ساقی
عشق کی تیغ جگردار اڑا لی کس نے
علم کے ہاتھ میں خالی ہے نیام اے ساقی
سینہ روشن ہو تو ہے سوز سخن عین حیات
ہو نہ روشن ، تو سخن مرگ دوام اے ساقی
تو مری رات کو مہتاب سے محروم نہ رکھ
ترے پیمانے میں ہے ماہ تمام اے ساقی !

جگر مراد آباد کی خوبصورت شاعری

طبیعت ان دنوں بیگانۂ غم ہوتی جاتی ہے
مرے حصے کی گویا ہر خوشی کم ہوتی جاتی ہے

سحر ہونے کو ہے، بیدار شبنم ہوتی جاتی ہے
خوشی منجملۂ اسبابِ ماتم ہوتی جاتی ہے

قیامت کیا یہ اے حسنِ دو عالم ہوتی جاتی ہے
کہ محفل تو وہی ہے دل کشی کم ہوتی جاتی ہے

وہی مے خانہ و صہبا، وہی ساغر، وہی شیشہ
مگر آوازِ نوشا نوش مدّھم ہوتی جاتی ہے

وہی ہیں شاہدو ساقی، مگر دل بجھتا جاتا ہے
وہی ہے شمع، لیکن روشنی کم ہوتی جاتی ہے

وہی شورش ہے لیکن جیسے موجِ تہ نشیں کوئی
وہی دل ہے مگر آواز مدّھم ہوتی جاتی ہے

وہی ہے زندگی لیکن جگرؔ یہ حال ہے اپنا
کہ جیسے زندگی سے زندگی کم ہوتی جاتی ہے

(جگرؔ مراد آبادی)​
حسنِ کافر شباب کا عالم
ہم سے پا تک شراب کا عالم

عرق آلود چہرہ تاباں
شبنم و آفتاب کا عالم

وہ مری عرض شوقِ بیحد پر
کچھ حیا، کچھ عتاب کا عالم

اللہ اللہ وہ امتزاجِ لطیف
شوخیوں میں حجاب کا عالم

ہمہ نورد سرور کی دُنیا
ہمہ حُسن و شباب کا عالم

وہ لبِ جوئبار و موسمِ گل
وہ شب مہتاب کا عالم

زانوئے شوق پر وہ پچھلے پہر
نرگس نیم خواب کا عالم

دیر تک احتلاطِ راز و نیاز
یک بیک اجتناب کا عالم

لاکھ رنگیں بیانیوں پہ میری
اِک سادہ جواب کا عالم

غم کی ہر موج موجِ طوفاں خیز
دل کا عالم، حباب کا عالم

دلِ مطرب سمجھ سکے شاید
اِک شکستہ رباب کا عالم

وہ سماں آج بھی ہے یاد جگر
ہاں مگر جیسے خواب کا عالم
***
وہ احساسِ شوقِ جواں اوّل اوّل
وہ اِک عالمِ گُل فشاں اوّل اوّل

وہ خود ساختہ اِک طلسمِ تمنّا!
وہ تالیف و تصنیفِ جاں اوّل اوّل

وہ موہوم سا اک جہانِ محبّت
وہ مبہم سی اِک داستاں اوّل اوّل

تخیل میں رنگینیاں، رفتہ رفتہ
تصور میں تصویرِ جاں اوّل اوّل

وہ اِک کلفتِ جاں تازہ تازہ
وہ اِک عشرتِ سرگراں اوّل اوّل

مجسّم وہ تعبیرِ خوابِ محبت
وہ نظارہ ناگہاں اوّل اوّل

وہ اک پیکرِ حسن و معصوم و سادہ
وہ اِک جلوۂ بے اماں اوّل اوّل

تکلم میں بے ربط سا اِک تسلسل
خموشی میں حسنِ بیاں اوّل اوّل

جگرؔ آہ انجام و آغازِ الفت
سکوت آخر آخر، فغاں اوّل اوّل

(جگرؔ مراد آبادی)​
جان کر منجملۂ خاصانِ مے خانہ مجھے
مُدّتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ مجھے

ننگِ مے خانہ تھا میں ساقی نے یہ کیا کر دیا
پینے والے کہہ اُٹھے "یا پیرِ مے خانہ" مجھے

سبزہ و گل، مو ج و دریا، انجم و خورشید و ماہ
اِک تعلق سب سے ہے لیکن رقیبانہ مجھے

زندگی میں آ گیا جب کوئی وقتِ امتحاں
اس نے دیکھا ہے جگرؔ بے اختیارانہ مجھے

(جگرؔ مراد آبادی)​
جگر مراد آبادی کی آواز میں غزل
دنیا کے ستم یاد نہ اپنی ہی وفا یاد
اب مجھ کو نہیں کچھ بھی محبت کے سوا یاد

میں شکوہ بلب تھا مجھے یہ بھی نہ رہا یاد
شاید کہ مرے بھولنے والے نے کیا یاد

کیا جانیے کیا ہو گیا اربابِ جنوں کو
جینے کی ادا یاد نہ مرنے کی ادا یاد

جب کوئی حسیں ہوتا ہے سرگرمِ نوازش
اس وقت وہ کچھ اور بھی آتے ہیں سوا یاد

میں ترکِ رہ و رسمِ جنوں کر ہی چکا تھا
کیوں آ گئی ایسے میں تری لغزشِ پا یاد

مدت ہوئی اک حادثۂ عشق کو لیکن
اب تک ہے ترے دل کے دھڑکنے کی صدا یاد

کیا لطف کہ میں اپنا پتہ آپ بتاؤں
کیجیے کوئی بھولی ہوئی خاص اپنی ادا یاد​
***
دِیدہء یار بھی پُرنم ہے، خُدا خیر کرئے!​
آج کچھ اور ہی عالم ہے، خُدا خیر کرئے!​

اُس طرف غیرتِ خُورشیدِ جمال اور اِدھر​
زعم خوددارئ شبنم ہے، خُدا خیر کرئے!​

دِل ہے پہلُو میں کہ مچلا ہی چلا جاتا ہے​
اور خُود سے بھی وہ برہم ہے، خُدا خیر کرئے!​

رازِ بیتابئ دل کچھ نہیں کُھلتا، لیکن​
کل سے درد آج بہت کم ہے، خُدا خیر کرئے!​

حُسن ہر گام پہ ہے سایہ فگن، دام فگن​
عشق آزادِ دو عالم ہے، خُدا خیر کرئے!​

جِگر مُراد آبادی​



محسن نقوی کی شاعری

اک دیا دل میں جلانا بھی، بجھا بھی دینا
یاد کرنا بھی اسے روز، بھلا بھی دینا
کیا کہوں میری چاہت ہے یا نفرت اس کی
نام لکھنا بھی میرا، لکھ کے مٹا بھی دینا
پھر نہ ملنے کو بچھڑتا ہوں تجھ سے لیکن
مڑ کے دیکھوں تو پلٹنے کی دعا بھی دینا
خط بھی لکھنا اسے مایوس بھی رہنا اس سے
جرم کرنا بھی مگر خود کو سزا بھی دینا
مجھ کو رسموں کا تکلف بھی گوارا لیکن
جی میں آئے تو یہ دیوار گرا بھی دینا
اس سے منسوب بھی کر لینا پرانے قصے
اس کے بالوں میں نیا پھول سجا بھی دینا
صورتِ نقش ِ قدم، دشت میں رہنا محسن
اپنے ہونے سے نہ ہونے کا پتہ بھی دینا
محسن نقوی
طے کر نہ سکا زیست کے زخموں کا سفر بھی
حالانکہ مرا دل تھا شگوفہ بھی شرر بھی
اترا نہ گریباں میں مقدر کا ستارا
ہم لوگ لٹاتے رہے اشکوں کے گہر بھی
حق بات پہ کٹتی ہیں تو کٹنے دو زبانیں
جی لیں گے مرے یار باندازِ دگر بھی
حیراں نہ ہو آئینہ کی تابندہ فضا پر
آ دیکھ ذرا زخمِ کفِ آئینہ گر بھی
سوکھے ہوئے پتوں کو اُڑانے کی ہوس میں
آندھی نے گرائے کئی سر سبز شجر بھی
وہ آگ جو پھیلی مرے دامن کو جلا کر
اس آگ نے پھونکا میرے احباب کا گھر بھی
محسن یونہی بدنام ہوا شام کا ملبوس
حالانکہ لہو رنگ تھا دامانِ سحر بھی
محسن نقوی
اب کے اس طور سے آنچل کی ہوا دے مجھ کو
جاگتے ذہن کی میراث بنا دے مجھ کو
میں نے سمجھا ہے تجھے منصفِ دوراں اکثر
میری ناکردہ گناہی کی سزا دے مجھ کو
میں تری راہ میں اک سنگ سبک وزن تو ہوں
دیر کیا لگتی ہے ٹھوکر سے ہٹا دے مجھ کو
یہ الگ بات کہ اوجھل ہوں نظر سے ورنہ
میں تیرے پاس ہی رہتا ہوں صدا دے مجھ کو
میں دھڑکتا ہوں تیرے سینے میں دل کی صورت
اے مرے دشمنِ جاں اور دعا دے مجھ کو
اف شبِ غم کا وہ ٹھہرا ہوا لمحہ محسن
جب مرے وہم کی آہٹ بھی جگا دے مجھ کو
محسن نقوی
پھیلے گی بہر طور شفق نیلی تہوں میں
قطرے کا لہو بھی ہے سمندر کی رگوں میں
مقتل کی زمیں صاف تھی آئینہ کی صورت
عکسِ رخِ قاتل تھا ہر اک قطرہءِ خوں میں
مت پوچھ مری چشمِ تحیر سے کہ مجھ کو
کیا لوگ نظر آئے ہیں دشمن کی صفوں میں
کچھ وہ بھی کم آمیز تھا، تنہا تھا، حسیں تھا
کچھ میں بھی مخل ہو نہ سکا اس کے سکوں میں
ہر صبح کا سورج تھا میرے سائے کا دشمن
ہر شب نے چھپایا ہے مجھے اپنے پروں میں
اب اہل خرد بھی ہیں لہو سنگِ جنوں سے
کیا رسم چلی شہر کے آشفتہ سروں سے
جو سجدہ گہِ ظلمت ِ دوراں رہے محسن
اتری نہ کوئی اندھی کرن ایسے گھروں میں
محسن نقوی
چراغ خود سے بجھا ہے کہ رات بیت گئی
یہ راکھ راکھ رتیں اپنی رات کی قسمت
تم اپنی نیند بچھاؤ تم اپنے خواب چنو
بکھرتی ڈوبتی نبضوں پہ دھیان کیا دینا
تم اپنےدل میں دھڑکتے ہوئے حروف سنو
تمہارے شہر کی گلیوں میں سیل رنگ بخیر
تمہارے نقش قدم پھول پھول کھلتےر ہیں
وہ رہگزر جہاں تم لمحہ بھر ٹھہر کے چلو
وہاں پہ ابر جھکیں آسمان ملتے رہیں
نہیں ضروری کہ ہر اجنبی کی بات سنو
ہر اک صدا پہ دھڑکنا بھی دل پہ فرض نہیں
سکوتِ حلقہء زنجیرِ در بھی کیوں ٹوٹے
صبا کا ساتھ نبھانا جنوں پہ قرض نہیں
ہم ایسے لوگ بہت ہیں جو سوچتے ہی نہیں
کہ عمر کیسے کٹی کس کے ساتھ بیت گئ
ہماری تشنہ لبی کا مزاج کیا جانے ؟
کہ فصل بخشش موج فرات بیت گئ
یہ ایک پل تھا جسے تم نے نوچ ڈالا تھا
وہ اک صدی تھی جو بے التفات بیت گئ
ہماری آنکھ لہو ہے تمہیں خبر ہو گی
چراغ خود سے بجھا ہے کہ رات بیت گئی
محسن نقوی
لہو کی موج ہوں‌ اور جسم کے حصار میں ہوں
رواں رہوں بھی تو کیسے کہ برف زار میں ہوں
جہانِ شامِ الم کے اداس ہمسفرو
مجھے تلاش کرو، میں اسی دیار میں ہوں
میں پھول بھی ہوں میرے پیرہن میں‌رنگ بھی ہے
مگر ستم یہ ہوا ہے کہ ریگ زار میں ہوں
چراغِ راہ سہی خود فریب ہوں اتنا
کہ شب کی آخری ہچکی کے انتظار میں ہوں
ہر ایک پل مجھے خوفِ شکست ہے محسن
میں آئینہ ہوں مگر دستِ سنگبار میں ہوں
محسن نقوی
اب کے یوں بھی تیری زلفوں کی شکن ٹوٹی ہے
رنگ پھوٹے، کہیں‌ خوشبو کی رسن ٹوٹی ہے
موت آئی ہے کہ تسکین کی ساعت آئی
سانس ٹوٹی ہے کہ صدیوں کی تھکن ٹوٹی ہے
دل شکستہ تو کئی بار ہوئے تھے لیکن
اب کے یوں ہے کہ ہر شاخِ بدن ٹوٹی ہے
ایک شعلہ کہ تہہِ خیمہءِ جاں لپکا تھا
ایک بجلی کہ سرِ صحنِ چمن ٹوٹی ہے
میرے یاروں کے تبسم کی کرن مقتل میں
نوکِ نیزہ کی طرح زیرِ کفن ٹوٹی ہے
ریزہ ریزہ میں بکھرتا گیا ہر سو محسن
شیشہ شیشہ میری سنگینیءِ فن ٹوٹی ہے
محسن نقوی
شام کے سر پر آنچل دیکھا
ہم نے جلتا جنگل دیکھا
اپنی آنکھ میں آنسو پائے
اُن کی آنکھ میں کاجَل دیکھا
پھول نظر میں رقصاں رقصاں
جانے کِس کا آنچل دیکھا
من کے بَن میں خاک اُڑتی تھی
آج وہاں پر جل تھَل دیکھا
جب بھی دیکھا ہے محسن کو
تیرے پیار میں پاگل دیکھا
محسن نقوی
میں دل پہ جبر کروں گا، تجھے بھلا دوں گا
مروں گا خود بھی تجھے بھی کڑی سزا دوں گا
یہ تیرگی میرے گھر کا ہی کیوں‌ مقدر ہو ؟
میں تیرے شہر کے سارے دیئے بجھا دوں گا
ہوا کا ہاتھ بٹاؤں گا ہر تباہی میں
ہرے شجر سے پرندے میں خود اڑا دوں گا
وفا کروں گا کسی سوگوار چہرے سے
پرانی قبر پہ کتبہ نیا سجا دوں گا
اسی خیال میں گزری ہے شامِ درد اکثر
کہ درد حد سے بڑھے گا تو مسکرا دوں گا
تو آسماں کی صورت ہے گر پڑے گا کبھی
زمیں ہوں بھی مگر تجھ کو آسرا دوں گا
بڑھا رہی ہیں میرے دکھ، نشانیاں تیری
میں تیرے خط، تری تصویر تک جلا دوں گا
بہت دنوں سے مرا دل اداس ہے محسن
اس آئینے کو کوئی عکس اب نیا دوں گا
محسن نقوی






اردو كی بہترین ویب سائٹ كے لیے یہاں سرچ كریں